Pakistan Tourism

بلھے شاہؒ (قصور): مکمل تاریخ، روحانی سفر اور ان کہی کہانی

صوفی ازم، عشقِ حقیقی اور انسانیت کے پیغام کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو قصور کے عظیم شاعر اور صوفی بزرگ حضرت بلھے شاہؒ کا نام لازمی طور پر سنائی دیتا ہے۔ بلھے شاہؒ نے نہ صرف پنجابی ادب کو نئی زندگی دی بلکہ دلوں کے زنگ اتارنے والے ایسے اشعار تخلیق کیے جو آج بھی روح کو اس طرح جھنجھوڑتے ہیں جیسے صدیوں کا سفر لمحوں میں سمٹ آئے۔ یہ مضمون بلھے شاہؒ کی جامع تاریخ، چھپی ہوئی روایات، کم معروف پہلوؤں، گہری روحانی تربیت اور اُن کے کلام کے اثرات پر مبنی ہے۔ اسے وسیع تحقیق، روایات، تاریخی حوالوں اور عوامی بیانیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔

bulleh shah baba bulleh shah baba bulleh shah kalam kalam baba bulleh shah bulleh shah
bulleh shah baba bulleh shah baba bulleh shah kalam kalam baba bulleh shah bulleh shah

بلھے شاہؒ کا تعارف

حضرت عبداللہ شاہ قادری المعروف بلھے شاہؒ 1680ء میں اوچ گلّاں (موجودہ ضلع بہاولپور کے قریب) میں پیدا ہوئے۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان قصور منتقل ہوا، جہاں انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ گزارا اور جہاں ان کا مزار بھی واقع ہے۔ بلھے شاہؒ کا نام آج بھی تصوف، محبت، امن اور معاشرتی اصلاح کا استعارہ ہے

بلھے شاہؒ کی ابتدائی زندگی

بلھے شاہؒ کے والد شیخ محمد درویش ایک عالمِ دین، فقیہ اور قادری سلسلے کے بزرگ تھے۔ ان کی تربیت بھی دین، اخلاق اور روحانیت کے ماحول میں ہوئی۔ بچپن میں بھی ان کی طبیعت میں خاموشی، گہرائی، غور و فکر اور تنہائی پسندی پائی جاتی تھی۔

ان کی ابتدائی تعلیم قصور میں ہوئی، جہاں انہوں نے:

قرآن اور حدیث

فقہ

عربی و فارسی

منطق و فلسفہ

کی تعلیم حاصل کی۔ بلھے شاہؒ علم میں بے حد تیز تھے اور کم عمری میں ہی انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔

bulleh shah baba bulleh shah baba bulleh shah kalam kalam baba bulleh shah bulleh shah
bulleh shah baba bulleh shah baba bulleh shah kalam kalam baba bulleh shah bulleh shah

بلھے شاہؒ کا روحانی سفر اور شاہ عنایت قادری کی بیعت

بلھے شاہؒ کے تصوف کا نقطۂ آغاز ان کے مرشد حضرت شاہ عنایت قادری کی مریدی ہے۔ روایت ہے کہ بلھے شاہؒ علم کے باوجود دل کی بے چینی محسوس کرتے تھے۔ جب پہلی بار شاہ عنایتؒ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے دل کی دنیا بدل کر رکھ دی۔ شاہ عنایتؒ ایک مزارع (کاشتکار) تھے، اور اس دور میں ایک بڑے عالم کا ایک کاشتکار کے ہاتھوں بیعت ہونا ایک بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ معاشرے نے سخت تنقید کی، لیکن بلھے شاہؒ نے جواب دیا: "پاڑھی لکھیاں دے جھگڑے، لوکاں دے وِیچ وساہ نہیں جِتھے یار ملیا اپنے، اوہو تھاں بلّا جاہ نہیں"

ان کہی کہانی: بلھے شاہؒ اور سماجی مخالفت

بلھے شاہؒ کی زندگی کا ایک پہلو جو کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ مرشد کی محبت میں انہیں شدید سماجی مخالفت، طعنے، اور حتیٰ کہ نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کی شاعری میں اکثر مقامات پر یہ درد جھلکتا ہے:

“بلھا کیہ جاناں میں کون

نا میں مُومن وچ مسیتاں نا

میں وچ کفر دیاں ریتاں”

ان کی یہ بغاوت اصل میں معاشرتی اصولوں کے خلاف نہیں بلکہ ظاہری پن، ریاکاری اور بناوٹ کے خلاف تھی۔

بلھے شاہؒ کی زندگی کی وہ داستان جو کم لوگ جانتے ہیں

روایت ہے کہ ایک مرتبہ بلھے شاہؒ کو اپنے مرشد کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ شاہ عنایتؒ نے انہیں اپنی محفل سے دور کر دیا۔ بلھے شاہؒ نے معافی کی کوششیں کیں لیکن مرشد خاموش رہے۔ اسی دوران انہوں نے اپنے مرشد کو راضی کرنے کے لیے رقص کیا، حالانکہ اس دور میں عالمِ دین کا رقص کرنا انتہائی خلافِ معمول سمجھا جاتا تھا۔

ان کا مشہور کلام:

“پاواں باجاں نچنا پیر منایا یار دا”

اسی واقعے کی نشانی ہے۔ یہ قصہ بتاتا ہے کہ بلھے شاہؒ کے نزدیک روحانی محبت ہر مقام سے بلند تھی—وہ مرشد کی رضا کے لیے ہر حد تک جا سکتے تھے۔

بلھے شاہؒ کا کلام: عشق، وحدت اور انسانیت

بلھے شاہؒ کی شاعری پنجابی ادب کا ایک بے مثال سرمایہ ہے۔ ان کا کلام:

عشقِ حقیقی

خود شناسی

مذہبی منافقت کے خلاف آواز

ذات پات کی نفی

انسانیت کی یکسانیت پر مبنی ہے۔

ان کے کچھ مشہور کلام:

1. “بلھا کیہ جاناں میں کون” خود شناسی اور بے خودی کا اعلیٰ ترین اظہار۔

2. “رنجھا رنجھا کریے” عشقِ الٰہی کے لیے رنجھے کا استعارہ۔

3. “نچ نچ کے یار مناون آں” روحانی سفر میں بے خودی کی کیفیت۔

بلھے شاہؒ اور قصور کی شناخت

قصور آج بھی بلھے شاہؒ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کے مزار پر روزانہ ہزاروں زائرین آتے ہیں۔ سالانہ عرس میں لوگ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے شامل ہوتے ہیں۔ مزار کے قریب موسیقی، دھمال، قوالی اور پنجابی کلچر کے رنگ آج بھی زندہ ہیں۔۔

بلھے شاہؒ کی تعلیمات کی اہم نکات

1. انسانیت سب سے پہلے

انہوں نے ہمیشہ کہا کہ انسان کو انسان سمجھو—چاہے اس کا مذہب، ذات یا مقام کچھ بھی ہو

۔ 2. دل کی صفائی

بلھے شاہؒ کے نزدیک اصل عبادت دل کی پاکیزگی ہے۔

3. ظاہری نمود و نمائش کی نفی

انہوں نے ریاکاری اور مذہبی تشدد کو ہمیشہ رد کیا۔

4. علم اور عشق کا ملاپ

ان کے نزدیک علم اور عشق ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔

بلھے شاہؒ کی وفات

بلھے شاہؒ 1757ء میں دنیا سے رخصت ہوئے اور قصور میں دفن ہوئے۔ ان کے چاہنے والے آج بھی ان کے کلام سے روحانی غذا حاصل کرتے ہیں۔

Frequently Asked Questions

بلھے شاہؒ کا اصل نام عبداللہ شاہ قادری تھا۔

حضرت شاہ عنایت قادریؒ۔

“بلھا کیہ جاناں میں کون” کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔

ان کا مزار قصور میں واقع ہے۔

کیونکہ انہوں نے ظاہری مذہبیت اور سماجی اصولوں سے بغاوت کر کے روحانیت کو اصل مقام دیا۔

services-4.jpg
Shopping Basket